10- اسالیب دعوت کے مصادر اور اس کے وسائل


ان مصادر کو مختصر انداز میں ایک سطر میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہ مصادر حسب ذیل:-

۱- قرآن کريم على فهم السلف الصالح۔

٢- سنت نبویہ على فهم السلف الصالح۔

٣- سیرت اسلاف صالحین جس میں سیرت خلفاء راشدین اور صحابہ رضی اللہ عنہ اصل ہیں۔

٤- فقہاء کے استباطات۔

٥- تجربات : - داعی کا خود اپنی تجربات اور دوسرے داعیوں کے تجربات۔


ان مصادر میں سے ہر ایک کی بعض تفاصیل حسب ذیل:-

۱قرآن کریم : اس میں بہت سی آیات ایسی ہے جو انبیاء ورسل اور ان کی قوموں کے ساتھ واقعات پیش آئے ان کی خبر دی گئی ہے۔ اسی طرح اللہ نے نبی صلّی اللہ علیہِ وسلم کو دعوت کے امور سے متعلق جو ہدایات دی ہے ان پر مشتمل ہے ان آیات کریمہ سے اسالیب دعوت اور اسکے وسائل کے ایسے اصول استفادہ کیا جا سکتا ہے جس سے ایک مسلمان کو اس طرح تفقہ حاصل کرنا ضروری ہے جس دین کے دیگر امور کے تفقہ حاصل کرتا ہے کیونکہ اللہ نے ہمیں جو واقعات بتایا ہے اور جس کی خبر دی ہے وہ اس لے ھیکہ ہم اس سے استفادہ کرے اور دعوت الی الله کے میدان میں ان معانی اور مفاہیم سے سبق حاصل کرے اور اس منھج کو لازم پکڑے اللہ کا ارشاد ہے ۔ (( وكلا نقض عليك .....)) - سورہ ھود:  ١٢.

 اور امورے دعوت میں رسولوں کی سیرت کی اقتداء آپ صلی اللہ علیہِ وسلم نے کی چنانچہ مسلمان دعوت کے امور میں آپ صلی اللہ علیہِ وسلم اور دیگر رسولوں کی سیرت کو اصول و نمونہ بناتے ہیں۔ چنانچہ الله نے ارشاد فرمایا ((لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ)) ۔  سورة يوسف - الآية: 111   ۔                  

چنانچہ امم سابقہ کے واقعات اور انبیاء کے درمیان جو واقعات رونماء ہوئے جو بحث ہوا ان تمام چیزیں عقل سلیم رکھنے والے لوگوں کے لئے عبرت ہے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں پر ہدایت ہے کیونکہ یہی لوگ اللہ کے بیان کردہ ماضی کے ایسے لوگوں کو حق کے لیے کھول دیا اللہ کا ارشاد ہے 

یہ آیت کریمہ دعوت الی اللہ کے باب میں رسولوں کی منھج کی اقتداء کو لازم پکڑنے کی طرف اشارہ کی ہے اور اس آیت کے اندر رسولوں کو دیا گیا تو آپ کی امت پر ان تمام چیزوں جس کو رسول نے مشروع قرار دیا ہو یا رسول نے اس کا حکم دیا ہو آپ کی امت آپ کی تابع ہے لہذا ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی کتاب سے اپنا رشتہ مضبوط کرے اور اس کو خوب پڑھے یاد کرے غور فکر کرے اور اس کی تعلیم دے اور احکام اور عوامل پر وقوف کرے اس کی توضیحات کو لازم پکڑے اور زندگی کے تمام احوال میں اس کی اتباع کرے ۔


۲-  سنت نبویہ :- کتب احادیث میں بہت سی حدیثیں ایسی ہے جو دعوت اور اس کے وسائل سے متعلق ہے جبکہ مکہ میں رسول کے ساتھ جو واقعات رونماء ہوئے اور ان احادیث آور ظروف کا مقابلہ کیا اور اس کا علاج آپ نے کیا۔ یہ سب سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے تمام کے تمام۔ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہِ وسلم جن مراحل و احوال سے گزرے ممکن ہے کہ ایک داعی مختلف زمان ومکان میں ایسی حالات سے گزرے یا اس جیسایا اس کے مشابه یا اس کے قریب بلاد حالات کو پا جائے تو ایسی صورت میں تو نبی صلّی اللہ علیہِ وسلم کی سیرت میں موجود صحیح حل اور سلیم موقف سے استفادہ کر سکتا ہے ۔


             دعوت الی اللہ کے باب میں سنت کی اہمیت 


چونکہ داعی لوگوں کو جن واقعات عبادات اخلاقیات اور دیگر امور سے مستفید کرنا چاہتا ہے وہ سنت سے استفادہ کر سکتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل عليهم۔۔۔۔)

 سنت داعی کے لئے دعوت الی اللہ کے صحیح منھج اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ((قل هذه سبيلي ادعوا إلى الله على بصيرة أنا ومن اتبعني وسبحان الله وما أنا من المشركين))- 


داعیان حق کے لئے رسول اللہ کی زندگی اسوہ اور قہوہ ہے دلیل :- 

(لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة لمن كا يرجوا الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا ) - ۲۳ / ۲۱

نیز نبی صلّی اللہ علیہِ وسلم نے اپنی سنت کو اختیار کرنے اور اس کے منہج پر چلنے اور اس کو سنت بتانے کی وصیت اور تلقین کی ہے حدیث رسول ۔( عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين).  

امت اسلامیہ کا سنت کو اپنانے اوراس هدایت آور روشی حاصل کرنے پر اتفاق ہے اور جو شخص اس سے انحراف کرتا ہے تو ایسا شخص گمراہ اور بدعتی ہے۔

امام شاطبی فرماتے ہیں " من اقتصر على القرآن دون سنة هم قوم لا خلفهم خارجين عن السنة (موفقة على السنة ١٧٩/٣).


 ٣- ‌ سیرت سلف صالحین : سلف صالحین صحابہ اور تابعین کے امور دعوت میں حالات و تجربات ہے جس سے داعیان حق استفادہ کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ سلف صالحین آپ کی مراد کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتے اور سمجھتے تھے ۔ اور دعوت کی حقانیت سے اچھی طرح واقف تھے چنانچہ اہل علم ان کی سیرت سے استدلال کرتے ہیں اور ان کی نقش قدم کی اتباع کرتے ہیں ۔

٤-  استنباطات فقہاء:-   فقہاء کرام شرعی دلائل کی روشنی میں احکام کا استنباط کرتے ہیں اور ان احکام میں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جهاد في سبيل الله وغيره چنانچہ بعض لوگوں نے اپنی کتابوں میں خاص باب کے تحت ذکر کیا ہے دعوت اور امور دعوت سے متعلق اجتہاد کی روشنی میں مقرر اور ثابت کیا ہے۔ اس کا حکم ان کے دیگر مسائل اجتہادات کے حکم کی طرح ہے جس کی اتباع واجب یا مندوب ہے کیونکہ دعوت کے وسائل اور اسالیب دین کے امور میں سے ہے جس طرح کے عبادات اور معاملات کے مسائل ہوا کرتے ہیں ۔


٥-  تجربات -:- تجربہ انسان کا ایک بہترین معلم اور استاد ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لئے جس کا معاملہ انسان سے ہوتا ہے ۔ دعوت کے میدان میں داعی کے بیشتر تجربات ہوتا ہے ۔ اور یہ تجربات لوگوں کے ساتھ اس کے ڈائریکٹ عمل کا نچوڑ ہوا کرتا ہے کیونکہ تطبیق سے ان کی خطا اور غلطی واضح ہو جاتی ہے چنانچہ مستقبل میں وہ اس سے اجتناب کرتا ہے اور کبھی کبھی

کوئی چیز قیمتی ہوتی ہے اور انسان اپنی تجربات سے وہ چیز سیکھتا ہے وہ نقدی قیمت سے زیادہ قیمتی ہوا کرتی ہے اور مومن کی زندگی کا یہی معمول اور نچوڑ ہوتا ہے کیونکہ حدیث ہے۔

جس طرح داعی اپنی خاص تجربات سے استفادہ کرتا ہے اسی طرح اسے دعوت کے میدان میں دوسروں کی تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ کہا گیا ( ان الحكمة منالة المؤمن اخذها حيث وجدها) یعنی مومن کو چاہئے جہاں اچھی چیزیں ملے اسے وہ حاصل کر لے۔



        سبب اختيار فهم السلف في فهم الكتاب والسنة 


 من هم السلف الصالح ؟ وہ صحابہ اور تابعین اور ان کے منھج پر چلنے والے قرون مفضلہ کے لوگ ہیں نبی صلّی اللہ علیہِ وسلم کا ارشاد ہے (خير القرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم )

            چنانچہ یہی لوگ خیر القرون ہے اور ان کا منہج سب بہتر اور افضل ہے اسی لئے مسلمانوں کو اس منہج کی معرفت کا حریص ہونا چاہئے۔ تاکھ وہ اسکی اتباع کر سکے ۔ کیوںکہ ان کی منہج پر اور ان کی نقش قدم پر چلنا ممکن نہیں جب تک کہ ان کی معرفت و علم حاصل نہ کر سکے ۔



 فهم کتاب و سنت میں ہم نے ان کی فہم کو کیوں اختیار کیا ؟


اس لے کہ اللہ ان سے راضی ہوا قرآن کی آیت ہے - (( والسابقوں الأولون من المهاجرين والأنصار )) ۔ ۱۰۰/٩ 

ان کی حسن اتباع ان کی منھج مذہب اور طریقے کے معرفت کے سواء ممکن نہیں ہیں البته سلف آور سلفیت کی طرف محض استناب ان کی منہج اور طریقے کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا ہے بلکہ اسی( تابدار )دعوی کرنے والا شخص اپنے کو نقصان کریں گے اور دوسروں کی نقصا کا باعث بنیںگے اس کے منہج سلف کی معرفت ضروری ہے ۔

اس لئے کے کہ اللہ نے انہیں صلاح و فلاح کے وصف سے متصف کیا ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے (( الذين يتبعون الرسول النبي الأمي الذي يجدونه مكتوبا عندهم في التوراة والإنجيل --- 157/7)۔

سلف کے منھج کے تمسک اور اسکو اپنانے میں اختلاف اور انتشارے نجات ہے عرباض بن سارية کی حدیث (وسترون من بعدى اختلافا شديدا ، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين ، عضوا عليها بالنواجذ وإياكم والأمور المحدثات فإن كل بدعة ضلالة ) - ابو داود 4607۔ 

اس لئے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ اپنی زندگی گزاری آپ کی صحبت میں رہے اس لئے وہ اللہ اور کے رسول کی مراد کو زیادہ سمجھتے رہے اور اللہ اور اسکے رسول کا علم انہیں زیادہ رہا اور امت کے افراد میں حق کی معرفت رکھنے والے سب سے اچھے اور بہتریں لوگ تھے۔

س گئے کہ وہ لوگ حق کی طرف لوگوں میں سب سے زیادہ رجوع کرنے والے اور حق کی اتباع و وقوف کرنے والے ہے ۔ اسی طرح طرح کی دیگر اوصاف اور امتیازات ہے جس کی - بنیاد پر سلف کو ہم اختیار کرتے اور اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔



تبصرے