12 - مقومات الداعية أو الدعائم التي يقوم عليها المنهج الصحيح في الدعوة إلى الله
دعوت کی بنیادی اساس جس میں صحیح منہج قائم و دائم ہے اس سے ذیل کے نقات میں ملخص کیا جا سکتا ۔
1- العلم :
داعی کے لئے عالم بحكم الشرع یا جس چیز کی : دعوت دیتا ہے اس کا باخوبی علم ہونا ضروری ہے کیونکہ جاھل اس لائق نہیں کہ وہ دعوت دے سکے یا اسے داعی کہا جائے اللہ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہِ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ((فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ )) سورہ محمد: ۱۹
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب قائم کیا ہے " باب العلم قبل القول والعمل " ابن المنیر شرح البخاری میں بیان فرماتے ہیں کہ اس باب سے امام بخاری کی مراد یہ ھیکہ صحت قول و عمل کے لئے علم شرط ہے لهذا اس کے بغیر قول و عمل کا کوئی اعتبار نہیں ۔
علم حقیقی اصلاً معرفت کتاب اللہ اور سنت رسول صلی الله علیہِ وسلم قال تعالی ((وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ )) سورة النحل:٤٤
لہذا کوئی بھی داعی اپنی دعوت میں اس وقت ناجح (کامیاب) نہیں ہو سکتا جب تک اس کے اندر علم شرعی اور امر و نہی کے باب میں حکمت نہ پائی جائے۔ اور اگر وہ علم شرعی سے ناواقف ہے تو ہدایت کا راستہ اس پر مسدود ہوتا ہے اور فلاح کے راستے پر وہ نہیں چل سکتا۔
علم کی فضیلت اور اس کی ترغیب کے سلسلے میں وارد آیات و احادیث کے چند نمونے :-
قال تعالی (( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ))
قال تعالی ((يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ))
من السنة :-
عن معاوية مرفوعا (من يريد الله به خيرا يفقهه في الدين) بخاری
عن عبد الله بن مسعود مرفوعا ( لا حسد إلا في اثنين رجل آتاه الله ما لا فلطه على هلكته فى الحق ورجل آتاه الله حكمة فهو يعمل بها ويعلمها) بخاری : 73، مسلم
عن أبي موسى الأشعري مرفوعاً ( مثل ما بعثني الله به من الھد والعلم -------- ما بعثني الله به فعلم و علم) بخاری: ٧٩, مسلم: ۲۲۸۲۔
ان ادلہ کے بیان کرنے کا مقصد اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ جو شخص دعوت الی اللہ کے لئے اپنے آپ کو نچھاور کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم بہ پختہ اہل علم سے حاصل کریں جو سیدھے راستے کے راہی ہیں اور اہل سنت و جماعت کے منھج کو اپنانے والے ہیں۔ اور یہ عملی پختگی دعوت کے میدان میں اترنے سے پہلے ہے تاکہ حجت و دلیل کے ذریعے اس پر قائم ودائم ہو سکے اور روشنی و ہدایت کے راستے پر کیسے چل سکے اس پر واضح ہو جائے۔
2 - الإخلاص :
داعی پر جو چیز اہم اور واجب ھیکہ وہ یہ اپنی دعوت میں مخلص ہو اور اس کا اخلاص اللہ کے لئے ہو ۔ بیشں طور کہ اللہ تعالٰی سے اس کی جزاء کی میلان رکھے۔
لہذا اس کا اصل هدف مادی طبع اور دنیاوی غرض نہ ہو ۔ اس کا مقصد ریا و سمعہ نہ ہو شہرت طلبی نہ ہو یا اپنی دینی و علمی و عملی اور عقلی فضل کا اظہار نہ ہو یا یہ کہ ایسی چیزوں کا حکم نہ دے یا منع نہ کرے جس سے شیطان نے اس کے لئے مزین کیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے مومنین کو اپنی نیتوں اور اپنے عمل اور اپنی عبادت میں اللہ تعالٰی کا اخلاص کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے اور یہ حکم دیتے ہو کہ وہ اپنی امت کو اس بات کا مخاطب بنائے ۔
(( قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ )) سورہ الزمر :١١
(( قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي)) سورہ الزمر:١٤
(( مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ)) سورہ ھود:١٥
من السنة :
عن عمر بن خطاب مرفوعا ( إنما الأعمال بالنيات أي معناه كل عمل بالنية فلا يقبل عمل بدون نية) بخارى:٥٤, مسلم: ١٩٠٧
عن جابر بن عبد الله مرفوعا ( إن بالمدينة لرجالا ما سرتم مسيرا ولا قطعتم واديا إلا كانوا معكم جسهم المرض ) مسلم: ١٩١.
عن أبي هريرة مرفوعا قال الله تعالى : ( أنا أغنى الشركاء عن الشرك من عمل عملا أشرك فيه معنى تركته وشركه ) مسلم : ١٩٨٥ -
آثار سے کچھ دلائل : بعض سلف کے بعض آثار بھی وارد ہوئے جو نیت کی اہمیت اور قبول عمل میں اس کے کردار کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں ۔
مطرف ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ " صلاح القلب بصلاح العمل وصلاح العمل بصلاح النية" .
عبد الله بن مبارک فرماتے ہیں کہ " ربما عمل صغیر تعظمه النية وربما عمل كبير تصغره النية"
چنانچہ داعی پر ضروری ھیکہ وہ اپنی نیت خالص کرے اور نفس کی پیروی سے اپنے آپ کو دور رکھے اور اس کا ہدف و مقصد دار آخرت کی بھلائی اور اللہ کی رضا ہو ۔ اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے کیونکہ ان کی دعوت کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا اللہ سے اجر و ثواب حاصل کرتا رہا ہے۔
3 - المتابعة : أى الموافقة -:-
چوں نکہ دعوت الی اللہ اہم عبادت میں سے ہے تو اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر دو اساسی شرطے پائی جائے تاکہ آپ کی عبادت صحیح ہو - ١- الاخلاص ٢- المتابعت۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں " واذا كانت جميع الحسنات لابد فيها من شيئين ان يراد بها وجه الله ان تكون موافقة للشريعة فهذا في الأقوال والأفعال في الكلم الطيب والعمل الصالح في الأمور العلمية والأمور العبادية۔
لهذا قبول اعمال میں متابعت شرط ہے اور اعمال میں سے دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے اور عمل صالح وہ عمل ہے جو رسول اللہ کے طریقے کے موافق ہے اس لئے ائمہ سلف ان دونوں اصولوں کو جمع کیا کرتے تھے جیسے فضیل بن عیاض اللہ تعالٰی کے قول ( لیبلوکم ایکم احسن عملاً ) کے تفسیر میں فرماتے ھیکہ ای اخلصه وأصوبه فقيل له يا أبا على ما أخلصه وأصوبه فقل إن العمل إذا كان صوابا ولم يكن خالصا لم يقبل . وإذا كان خالصاً ولم يكن صوابا لم يقبل حتى يكون خالصاً صوابا - والخالص أن يكون لله والصواب أن يكون على السنة .
سعید ابن جبير رحمہ اللہ قال " لا يقبل قول إلا بعمل ولا يقبل قول وعمل إلا بنية ولا يقبل قول وعمل ونية بموافقة السنة".
لہذا ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ دعوت کے میدان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلک و منھج کو اپناۓ اور آپ کی اقتداء کرے کیونکہ اللہ تعالٰی نے ہمیں آپ کی اقتداء کا حکم دیا ہے (لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة) اور رسول نے بھی اپنی دعوت کا اغاز اپنے سے سابق انبیاء کرام کے طریقے پر کیا ۔
چنانچہ لوگوں کی عقیدہ کی اصلاح فرمائی اور عقیدۓ توحید پر سب کو اکٹھا کیا۔ چنانچہ اگر کوئی داعی رسول کے منھج اور اس کے طریقے کے برعکس دعوت کا آغاز کرتا ہے مثال کے طور پر کہ وہ اپنی دعوت کا آغاز جہاد یا اسلامی حکومت کے قیام سے کرتا ہے تو وہ اپنی دعوت میں نبیؐ کی منہج کے مخالفت کرتا ہے تو اسکی دعوت کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ اس طرح پر اصلاح دعوت جو منہج رسول اور فہم سلف کے مطابق نہ ہو تو ایسی دعوت کا انجام اور اس کا نتیجہ دور درست نہیں آئے گا۔
4- الحکمة :
ایک کامیاب داعی کی اساس میں سے ایک اہم اساس حکمت بھی ہے۔ اگر نبی کی سیرت پر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ آپ کی تمام امور میں حکمت رہی ہے۔ بالخصوص دعوت الی اللہ کے باپ میں جونکہ اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا اور فرمایا ( ادعوا إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي أحسن إن ربک هو أعلم بمن ضل عن سبيله وهو أعلم بالمهتدين) سورہ النحل: ١٢٥
حکمت نام ہے کسی چیز کے اتقان اور احکام اس طور پر کہ ہر چیز کو اس کے مقام پر اتارا جائے اور اس کے مقام پر رکھا جائے دعوت کے میدان میں جلد بازی یا عجلت پسندی یہ حکمت میں سے نہیں ہیں اس طرح یہ تصور کرنا آپ کی دعوت سے لوگوں کی حالت تیزی سے بدل جائے گی جس طرح صحابہ کرام کا حال ہوا کرتا تھا ۔ اگر کوئی شخص ایسا ارادہ رکھتا ہے یا تصور کرتا ہے تو اس کا قصور عقلی صفاحت اور حکمت سے بعید پر مبنی ہوگا کیونکہ حکمت الہی بھی اس کا انکار کرتا ہے کیونکہ رسول پر و حکم شریعت بتدریج نازل ہوئی ہے تاکہ یہ احکام لوگوں کے دلوں میں مستقر ہو جائے یا اتر جاۓ۔
دعوت إلي اللہ کے چار مراتب ہیں جن کی جانب اس آیت کے اندر اشارہ کیا گیا ہے ۔ (١) حكمت ، (٢) موعظة حسنة, (٣) جدال بالأحسن غیر ظالم کے ساتھ (٤) ظالم کے ساتھ سختی سے نپٹنا ۔
حکمت کے تئیں احادیث رسول کے اندر اور کتب سنت اور کتب سیرت میں بڑی مثالیں ملتی ہے ہیں ۔ ان میں سے چند نمونہ جیسے ۔
١ - حدیث بول الأعرابي ، حدیث انس بن مالک (صحیح مسلم (٢٨٦)۔
٢ - عن ابو ہریرہ کی حدیث جس میں ایک اعرابی نے نبی صلی الله علیہِ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور یہ دعا کی ( اللهم ارحمنى ومحمدا ولا ترضى معنا احد ) جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا لقد حجت واسعا یعنی رحمہ اللہ (بخاری: ٦٠١٠)۔
٣ - معاوية بن حکم السلمی کا فرمان ( بينما انا مع رسول الله في صلاة إذ عطش رجل فقلت يرحمك الله فحل فنى القوم بصارهم فقلت واشكل اماه مالكم تنظرون إلى مالى فضرب القوم بأيديهم على أفخادهم . فلما رأيتهم يسكتو ننی لكنى سكت فلما انصرف النبي من ميلانه دعانی (مسلم: ٥٣٧)
یہ اور اس طرح کی بہت سی دلیلیں اور مثالیں موجود ہیں اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ نبی اپنے لوگوں کے ساتھ دعوت کا حکم حکمت اور نرمی کا معاملہ فرمایا کرتے تھے اس لئے ہر داعی کے لئے ضروری ہیکہ وہ اپنی دعوت میں نبی کے امور کو پیش نظر رکھے نیز یہ بھی ضروری ہیکہ دعوت کے لیے میدان میں صبر سے کام لے مدعو یا مخاطب کے ساتھ تدریجی عمل اختیار کرنا کہ موحق اور صواب کی راہ پر اسے لایا جانا ممکن ہو سکے ۔
5- الرفق والحلم:-
داعی پر یہ بھی واجب ہیکہ وہ رفیق اور رحیم ہو لوگوں کے ساتھ سبقت کرنے والا حلیم نرم گوہ ہو خواہ یہ چیز لوگوں میں اس کی دعوت کی قبولیت اور اس کی دعوت سے استفادہ کیلئے زیادہ لائق اور مناسب ہے اور نبی کی یہی عادت شریفہ تھی اس لئے اللہ نے اپنے نبی پر اپنے اس قول ( فبما رحمة من الله لنت لهم ولو كنت فظا غليظ القلب لانفضوا من حولك) سے امتنان اور احسان جتایا ہے اور اللہ نے اپنے مؤمن بندوں پر ان کی طرف رسول کی بعثت سے ان پر اپنے احسان کا تذکرہ فرمایا ہے اس آیت میں
( قد جاءکم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حریص عليکم بالمؤمنين رؤوف رحيم)
نبی صلی الله علیہِ وسلم نے اپنی زندگی مکہ اور مدینہ میں گزاری آپ لوگوں کو دعوت دیتے رہے اور انتہائی نرمی کے ساتھ لوگوں کو تذکر کرتے رہے آپ نے شدت کو کبھی نہیں اپنایا جیسا کہ آپ کی سیرت سے واضح - اللہ نے جب موسی اور مامون کو فرعون جیسے شرکش کی طرف بھیجا تو ان دونوں کو بھی نرمی سے مخاطب ہونے کا حکم دیا اور فرمایا ( إذهبا إلى فرعون إنه طغى لعله يتذكر أو يخشى) .
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں عظیم عبرت ہے وہ یہ ھیکہ فرعون اتنا ہی منکر اور سرکش شخص تھا اور موسی الله کے مخلوق میں اللہ کے منتخب اور مختار بندے تھے اس کے باوجود بھی اللہ نے انہیں یہ حکم دیا کہ فرعون کے مخاطب کی انداز میں نرمی اختیار کریں ۔ اسی مفہوم میں مامون رشید کا ایک استدلال ہے وہ یہ ھیکہ ایک شخص نے اسے وعظ و نصیحت کی اور اپنی نصیحت مٹ سخت قول کا استعمال کیا تو مامون رشید نے اسے یہ کہا
" رجل ارفق قد بعث الله من هو خير منك إلى من هو شر منی وامره بالرفق تلا قوله تعالى ( فقولا له قولا لینا )
بعض احادیث رفق اور نرمی کی فضیلت کے متعلق۔
١- عن عائشة مرفوعا ( إن الرفق لا يكون في شيء إلا زانة ولا ينزع من شيء إلا شانه) مسلم : ٢٥٥٥.
٢- عن جرير بن عبد الله البجلي مرفوعا ( من يحرم الرفق يحرم الخير).
٣- نبی صلى الله عليه وسلم کا قول قبیلہ بنی عبد القیس کے اشج نامی شخص کے بارے میں ( إن فيك خَصلتينِ يُحِبُّهما الله: الحِلمُ، والأناة) رواه مسلم
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں